Skip to main content
PBS logo
 
 

Search - ستارہ لکیر چھوڑ گیا Sitarah Lakeer Chorr gya (Large Print)

ستارہ لکیر چھوڑ گیا  Sitarah Lakeer Chorr gya (Large Print)
stir1729 l17051740r 16701726wa1681 17111740i Sitarah Lakeer Chorr gya - Large Print
Author: ر, ف, ی, ع, ض, ا, Rafi Raza
رفیع رضا کی غزل،گہرے سیاسی و سماجی شعور، داخلی بحران اور بُ...  more »
ISBN-13: 9789695930038
ISBN-10: 9695930034
Publication Date: 9/15/2010
Pages: 288
Rating:
  • Currently 5/5 Stars.
 1

5 stars, based on 1 rating
Publisher: Sanjh سانجھ
Book Type: Hardcover
Large Print: Yes
Members Wishing: 0
Reviews: Member | Amazon | Write a Review
Read All 1 Book Reviews of "15871578157515851729 1604170517401585 1670172616081681 171117401575 Sitarah Lakeer Chorr gya Large Print"

Please Log in to Rate these Book Reviews

rafiraza avatar reviewed ستارہ لکیر چھوڑ گیا Sitarah Lakeer Chorr gya (Large Print) on
رفیع رضا ، ایک منفرد اور بلند پرواز پرندہ

بعض لوگ ادب کی تخلیق کے حوالے سے ادب برائے ادب کا پرچم اٹھائے پھرتے ہیں لیکن اگر ادب زندہ انسانوں کے حوالہ سے اور زندگی کے کینوس پر رنگ پکھیرنے کے پس منظر کے ساتھ صورتگری کا حامل ھے تو پھر ادب برائے زندگی اپنے اندر ایک بھرپور معنویت اور مقصدیت کا پیغامبر ھےِ ۔

آج مجھے جس تخلیق کار کے فن اور ادبی محاسن پر اپنی معروضات پیش کرنا ھیں وہ بھی ادب برا...ئے زندگی کے روح پرور نظریہ پر یقین رکھتا ھے ۔ حال ھی میں اس منفرد لب و لہجہ کے مالک شاعر کا شعری مجموعہ ستارہ لکیر چھوڑ گیا کے نام سے منصّہء شہود پر آیا ھے ۔ اور شناوران سخنوری سے داد و تحسین سمیٹ رھا ھے ۔

گو کہ میں ابھی مذکورہ کتاب کا جم کے مطالعہ نہیں کر پایا لیکن جتنا بھی مطالعہ کیا ھے اس کے زریعہ مجھ پر ایک ایسا درِ حیرت وا ھوا ھے کہ جس نے مجھے ایک ایسے رفیع رضا سے متعارف کروایا ہے جس سے پہلے میں نا آشنا تھا ۔ مجھے اس کتاب کے حوالہ سے رفیع رضا پیک وقت ایک شاعر،ایک انقلابی، ایک محب وطن، انسان اور انسانیت سے ٹوٹ کر پیار کرنے والا، زندگی کے تمام رنگوں ، جذبوں اور جہتوں کا صورتگر ، معاشرتی ناہمواریوں کا شدید نقاد ، طبقاتی استحصال سے نفرت کی حد تک اختلاف رکھنے والا ، تاریخ کی تلخ ترین سچائیوں کا مرثیہ گو ، مذھب کے نام پر پروان چڑھنے والی بدترین منافقتوں کا نوحہ گر ھے ۔ جہاں پر اپنی شاعری کے آئینے میں رفیع رضا اقوام عالم کے حوالے سے بین الاقوامی و عالمی طاقتوں کے استعماری ھتھکنڈوں اور استحصال پرور رویّوں اور منفی پالیسیوں پر سراپا احتجاج نظ آتا ھے وہیں پر وہ امت مسلمہ کی باھمی کمزوریوں ، ریشہ دوانیوں اور استعماری قوتوں کی کاسہ لیسی سے بھی اپنے شدید غم و غصی کا توانا انداز میں اظہار کرتا ھے ۔ رفیع رضا بیک وقت انسانی اجتماعی المیوں کا خطیب بھی ھے اور آنے روشن صبحوں کا نقیب بھی ھے، دکھوں،صدموں اور محرومیوں کا بیانگر بھی ھے اور امیدوں، آروؤں اور تمنّاؤں کا پیغامبر بھی ۔ آئیے رفیع رضا سے ملتے ھیں ۔



رفیع رضا کی مزکورہ کتاب میں پرندہ اسکے نمائندہ لفظ کے طور پہ واضح نظر آتا ھے ۔ پرندہ جو کہ ایک معصوم اور بے ضرر مخلوق ھے ، امن و آشتی، صلح جوئی اور بلند نگاھی ، وسیع الظرفی اور کشادہ روئی کی علامت ھے ، بلند ھمتی، جہد مسلسل اور نا مساعد حالات کا دلیری اور مستقل مزاجی سے مقابلہ کرنے کا استعارہ ھے اور یہ لفظ آپ رفیع رضا کی شاعری میں بار بار دیکھیں گے لیکن ھر بار ایک نئے مفہوم اور الگ آھنگ کیساتھ یہ آپکو رفیع کی سوچ دریچوں کی مختلف جہتوں اور زاویوں سے متعارف کراتا ھے ۔ اور شاعر کی سوچ میں پھیلی ھوئی ھمہ گیر وسعتوں اور بیکراں عالم امکانات کا عکّاس ھے ۔ مثالیں اسلئے نہیں دونگا کہ تحریر طوالت کا شکار ھو جائیگی



رفیع محبتوں،چاھتوں اور امن عالم کا علمبردار ھے وہ اس عالمگیر اور آفاقی سچائی کا درس دیتے ھوئے بھی اپنی روایتی عقلیت پسندی اور منطق و استدلال کے جاندار روئیّے کا دامن ھاتھ سے نہیں چھوٹنے نہیں دیتا ۔

طاقت کی یہاں کوئی ضرورت ھی نہیں ھے

نفرت کا درندہ ھے محبّت سے گرے گا

ساتھ ھی وہ اپنے لوگوں میں پروان چڑھنے والی ایسی برائیوں ، معاشرتی خرابیوں اور اخلاقی کمزوریوں کے مہلک اور تباہ کن اثرات اور نتائج سے اپنے اھل معاشرہ کو خبردار بھی کرتے ھیں

دشمن بھی اسی طاق میں مدّت سے ھے لیکن

یہ گھر مرے اپنوں کی وساطت سے گرے گا

اسی کے ساتھ وہ تاریخی حقائق کے تلخ پہلوؤں سے بھی چشم پوشی کرنے پہ آمادہ نہیں اور بڑے واضح لہجہ میں اسکا اظہار بھی کرتا ھے

اس شہر کی بنیاد میں پہلے بھی لہو تھا

یہ شہر اسی اپنی نحوست سے گرے گا



رفیع رضا ایک صاحب شعور اور صائب الرّائے معاشرتی اکائی ھونے کے حوالے سے معاشرہ میں پائے جانے والی مذھبی روایات کو من و عن بغیر کسی تحقیق و تصدیق کے صرف اندھی عقیدت کے بل بوتے پر تسلیم کرنے کو تیار نیں بلکہ وہ تو بلند بانگ اعلان کرتے ھیں کہ

عجیب لوگ ھیں خود سوچنے سے عاری ھیں

روایتوں کو عقیدہ بنا لیا ھوا ھے



رفیع رضا عالمی امن کے نام نہاد علمبرداروں اور انسانیت کی بھلائی کے جھوٹے دعویداروں کی دوغلی اور منافقانہ بلکہ انسانیت کش جبر و جور پر مبنی ظالمانہ چالوں اور عالمی امن کو سبوتاژ کرنے والی دھشت گرد پالیسیوں کا انتہائی جرآت اور بیباکی سے پردہ چاک کرتے ھیں

کہتا ھے بستیوں کو بسانا ھے اسکا کام

ساری زمیں اجاڑ کے کہتا ھے خوش رھو

آئین لکھتا رھتا ھے امن و امان کا

قرطاس امن پھاڑ کے کہتا ھے خوش رھو

کہتا ھے اب فضا پہ فقط اسکا راج ھے

اور پنکھ سب کے جھاڑ کے کہتا ھے خوش رھو

کہتا ھے اس کے قد کے برابر کوئی نہیں

آئینے توڑ تاڑ کے کہتا ھے خوش رھو



حریّت فکر کا ھر مجاھد دشت کربلا میں حق و باطل کے مابین برپا ھونے والی عظیم ترین معرکہ آرائی میں لشکر الہی کے سپہ سالار حسین ابن علی سے اکتساب فیض اور انکی روایت عشق سے طاقت حاصل کئے بغیر نعرہ ء انالحق لگا ھی نہیں سکتا اور یہی حقیقت رفیع رضا کے ھاں بھی اظہر من الشمس ھے کہ وہ کربلا کی روشنی سے اپنی راہ کا تعیّن کرتے ھیں

منظر سب کاٹنے آتے ھیں مرے نام و نشاں کو

میں ایک دیئے کا انہیں سر کاٹ کے دے دوں

لیکن وہ اس روشن ترین استعارے کا استعمال کس جاندار اور خوبصورت انداز سے فنکارانہ چابکدستی اور مہارت سے کرتے ھیں کہ عقل داد دینے پر مجبور ھو جاتی ھے

ڈھونڈ ھی لیتی ھے نیزے کی طرح کوئی بات

مجھ سے چھپتا ھی نہیں میرا سر ایسا ھے



یہ کتنا بڑا ظلم اور تاریخی بد دیانتی ھے کہ آجتک مسلمانوں کی تاریخ کو اسلامی تاریخ بنا کر پیش کیا جاتا رھا ھے حالانکہ اسلام کی تاریخ شعب ابی طالب ، غار حرا و ثور ، بدر و حنین،خیبر و خندق و احد و کربلا سے روشن ھے جبکہ مسلمانوں کی تاریخ جابر و مستبد حکمرانوں ،حجاج بن یوسف جیسے درندوں اور قاضی ابو یوسف جیسے درباری مولویوں اور مفتیوں سے آلودہ ھے ،رفیع شیخ و شا ہ کے اسی ناباک گٹھ جوڑ پر بلیغ تبصرہ کرتے ھیں



ضرور یہ کوئی ناپاک سا تعلق ھے

جو شیخ و شاہ نے رشتہ بنا لیا ھوا ھے



درج زیل اشعار میں رفیع رضا کی اظہار بیان کے حوالے سے جدّت پسندی ، تنوّع اور انفرادیت بھر پور انداز سے قاری کو اپنی سحر بیانی میں گرفتار کرتی نظر آتی ھے اور یہی لب و لہجہ اسے اپنے ھمعصر شعرا ء سے ممتاز و منفرد ٹھراتی ھے

لوگ روئے بچھڑنے والوں پر

اور ھم خود کو ڈھونڈ کر روئے

واقعی اپنی زات کی تلاش ، اپنی حقیقت کی پہچان اور اپنی سچائی کا عرفان ھی سب سے مشکل مرحلہ ھے اور جب کوئی اس دشوار گزار گھاٹی کو عبور کرکے اپنی زات سے متعارف ھونے پر احساس زیاں کے سوا کچھ نہ پائے تو پھر آنسو

ھی حاصل زندگی قرار پاتے ھیں لیکن پھر یہی آنسو اسکی





کامیابیوںکا پیش خیمہ ٹہرتے ھیں



مجھے اکیلا حد وقت سے گزرنا ھے

میں اپنے ساتھ کوئی ھمسفر نہیں لایا

===========================

کیسے دوں آگ کو ، پانی کو ، ھواؤں کو شکست

اپنی مٹی کو تو تسخیر نہیں کر سکتا

=============================

آنسو ھے ، پرندہ ھے ، ستارہ ھے ، فلک ھے

کیا کچھ نہ تری آنکھ کی غفلت سے گرے گا

=============================

ھمارے نام سے مشہور ھو رھے ھیں میاں

کئی پہاڑ یہاں طور ھو رھے ھیں میاں

ھم نے اپنے مضمون کے آغاز میں اپنے اس ذھین شاعر کی حب الوطنی اور اپنی دھرتی سے بے پناہ پیار کا زکر کیا تھا ، یہ خوبصورت رویّہ اسکی شاعری میں پوری ادبی وجاھت سے رواں دواں لہو کی گردش اور حرارت کی طرح موجزن ھے ، دیکھیں اس شعر میں دکھ کے احسا س کیساتھ محبت کی چاشنی اور مٹھاس بھی چھلک رھی ھے

کاٹتے رھتے ھیں شاخوں کو مرے دیس کے لوگ

چھاؤں دیتا چلا جاتا ھے شجر ایسا ھے

ھاں یہ دیس ،اسکی فضائیں، اسکی مٹی کی خوشبو اسقدر مہربان ھیں کہ اس کے باسی اپنے ھی دست و بازو نفرتوں اور تعصبات کی بھینٹ چڑھا کر اپنے جسم سے علیحدہ کردیتے ھیں ناقدرئ عالم کی اس سے افسوسناک مثال اور کہیں نہیں ملیگی لیکن یہ بد قسمت دست و بازو اپنے بدن سے کٹ کے ، اپنی دھرتی سے دربدری کی سزا جھیل کر بھی اپنے اسی گم گشتہ بدن کی سلامتی کیلئے بےقرار رھتے ھیں ملٹن کی پیرا ڈائز لاسٹ کیطرح رفیع رضا بھی اپنی گم گشتہ جنّت کا متلاشی ھے ۔

میری دعا ھے کہ خالق قرطاس و قلم افق شعر پہ رفیع رضا کو رفیع الشّان مقام پہ فائز فرمائے اور یہ ستارہ شاعری کے آسمان پر لکیر نہیں روشن تصّورات کی دھنک اور درخشاں امکانات کی کہکشاں چھوڑ کر جائے ، آمین


Genres: